دعویٰ سچ ہے۔
دعویٰ
27 جولائی کو، خواجہ آصف نے X پر پوسٹ کیا: ”پارلیمنٹ کے ممبران کی بجلی مفت نہیں ہوتی، میں آپکو 35 سال کے بل دکھا سکتا ہوں جو میں نے اپنی جیب سے ادا کیے ہیں۔“
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ججز یا بیوروکریٹس اپنے بل خود ادا کرتے ہیں یا نہیں اس بارے میں ان سے ہی پوچھا جا ئے۔
اس پوسٹ کو 1 لاکھ 45 ہزار سے زیادہ بار دیکھا جبکہ اب تک 900 سے زیادہ مرتبہ ری پوسٹ کیا جا چکا ہے
اسی دن، حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک اور سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق نے بھی X پر دعویٰ کیا کہ کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو مفت بجلی نہیں ملتی۔
انہوں نے لکھا کہ ”معذرت کے ساتھ کس پارلیمینٹیرین کو مفت بجلی یا گیس کی سہولت دستیاب ہے! کسی جماعت کے کسی ایم این اے، ایم پی اے یا سینیٹر کو ایسی کوئی سہولت حاصل نہیں، خواہ حکومتی ہو یا اپوزیشن، پارلیمنٹ لاجز کے تمام مکین اپنے اخراجات ادا کرتے ہیں نہ کریں تو الیکشن نہیں لڑ سکتے
حقیقت
ایک وفاقی وزیر، رکن قومی اسمبلی (MNA) اور بیوروکریٹ، تینوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ اس کے علاوہ، ممبران اسمبلی کے لیے تنخواہ اور مراعات کے قانون سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کو مفت بجلی کے یونٹ نہیں ملتے۔
توانائی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی نگرانی کرنے والی وزارت توانائی کے پاور ڈویژن کے سیکرٹری راشد محمود لنگڑیال نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو مفت بجلی نہیں ملتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”ہر کوئی [اپنے] بل ادا کرتا ہے۔“
سمندر پار پاکستانیوں اور انسانی وسائل کی ترقی کے وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین نے بھی جیو فیکٹ چیک کو تصدیق کی کہ ایم این ایز کو کوئی مفت بجلی نہیں ملتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”نہ ایم این ایز کے لیےاور نہ منسٹرز کےلیےپاور (بجلی) کی کوئی رعایت ہے ، نارمل بل آتے ہیں، میں تو خود تنگ ہوں [بجلی کے] بلوں سے ۔“
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی ایم این اے ناز بلوچ نے بھی ان معلومات کی تصدیق کی۔
انہوں نے کہا کہ ”میں پچھلے پانچ سال بھی ممبر نیشنل اسمبلی رہی ہوں اس دفعہ دوسری ٹرم ہے میری پارلیمنٹ کے اندر ہمیں تو کبھی کوئی مراعات یا سہولت نہیں ملی اور نہ ہم چاہتے ہیں کہ ایم این ایز کو ایسی کوئی سہولت ایکسٹرا ملے،پارلیمینٹرینز کو دو، دوگھروں کا بل بھرنا پڑتا ہے، ایک جس شہر سے ہمارا تعلق ہوتا ہے وہاں کا اور دوسرا اسلام آباد ،جہاں ہم رہتے ہیں ادھر کا بھی بل بھرتے ہیں۔“
For more:- paknetizens.com