بری امام کون تھے

Bari Imam

بری امام 1617 میں چکوال کے قصبے چولی کرسال میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 91 سال کی عمر میں اسلام آباد کے قصبے  چور پور میں وصال فرمایا جس کے بعد یہ قصبہ چور پور سے نور پور شاہاں کے نام سے پکارا جانے لگا، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس صوفی بزرگ کے مزار پر وقت کے بادشاہ حاضری دیا کرتے تھے۔

محمد حسیب قادری کی کتاب ’سیرتِ بری امام سرکار‘ میں ان کے حالات زندگی کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ بری امام کا سلسلہ نسب بغداد میں مدفون صوفی بزرگ شیخ عبد القادر جیلانی سے ملتا ہے اور آپ کے آباؤاجداد عراق سے نقل مکانی کر کے ہندوستان آئے تھے اور چکوال میں سکونت اختیار کر لی تھی۔

آپ کا نام شاہ عبد الطیف تھا۔ دس سال کی عمر میں والد محترم حضرت سید محمود  کے ہمراہ باغ کلاں میں نقل مکانی فرمائی جسے اب آبپارہ کہتے ہیں۔

انہوں نے دینی تعلیم غورغشتی ضلع اٹک میں حاصل کی، بعد ازاں کشمیر، بدخشاں، مشہد، بخارا، نجف، کربلا، بغداد، مصر اور شام کے تعلیمی دورے  کیے اور پھر حج کی سعادت بھی حاصل کی۔

سفر سے واپسی پر حجرہ شاہ مقیم میں ایک بزرگ حضرت سید جمال اللہ المعروف بالا پیر سے روحانی فیض حاصل کیا۔

باغ ِ کلاں واپس آئے تو والدین نے شادی کر دی۔ آٹھ سال تک اولاد ہی نہیں ہوئی۔

پھر ایک بیٹی پیدا ہوئی جو بچپن میں ہی وصال فرما گئی اور جس کے بعد آپ کی زوجہ محترمہ بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔

بیٹی اور بیوی کی وفات کے بعد آپ مکمل تارک ِدنیا ہوگئے۔ مارگلہ کے پہاڑوں کے دامن میں واقع نیلاں ندی میں طویل عرصہ کھڑے ہو کر چلہ کشی کی جس عرصے کو ان کے راوی بارہ سال بتاتے ہیں۔

پھر آپ نے مارگلہ پہاڑوں کے دامن میں ایک جگہ لوئی دندی کو اپنے لیے چنا اور وہیں عبادت و ریاضت میں مشغول رہنے لگے۔ آپ کی تبلیغ کی وجہ سے اردگرد کے علاقوں میں اسلام تیزی سے پھیلا۔

آپ تبلیغ دین کے لیے قریبی علاقوں کے تواتر کے ساتھ دورے کرتے تھے۔ جہاں جہاں آپ کا قیام رہا آج بھی وہ جگہیں بری امام کی بیٹھکوں کے نام سے منسوب ہیں جو پورے پوٹھوہار کے ساتھ کشمیر اور ہزارہ میں پھیلی ہوئی ہیں

بری امام کا لقب انہیں ان کے پیر حضرت بالا پیر قادری نے عطا کیا تھا اور کہا تھا کہ تم اس ’بر‘ یعنی خشکی کے ٹکڑے کے امام ہو جو بعد میں بری امام ہو گیا۔

روایت ہے کہ آپ کی خدمت میں مغل بادشاہ اورنگزیب بھی حاضر ہوئے تھے اور آپ نے ہی اس کو بادشاہ بننے کی بشارت دی تھی۔

آپ کا وصال 1708 میں 91 سال کی عمر میں ہوا اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو نور پور شاہاں میں دفن کیا گیا۔ یوں آپ کے وصال کو 316 سال ہو چکے ہیں۔

اسحاق ڈار کی خصوصی توجہ سے آپ کے مزار پر ایک شاندار کمپلیکس تعمیر کیا گیا ہے

انڈیا کے نامور شاعر، افسانہ و ناول نگار کرتار سنگھ دگل جو کہ 1917 میں دھمیال راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے، انہیں انڈیا کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ پدما بھاشن بھی ملا تھا اور وہ انڈیا کے ایوان بالا کے ممبر بھی  رہے۔

ان کی  خود نوشت Whom To Tell My Tale  جس کا اردو ترجمہ  ’کس پہ کھولوں گنٹھڑی‘ کے نام سے ریختہ پر موجود ہے۔

اس میں وہ بری امام کے عرس کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں۔ ’پنڈی سے کوئی دس کوس دور نورپور میں ہر برس بری امام کا میلہ لگتا تھا جو کئی روز تک رہتا تھا۔ اس میلے میں ملک بھر سے گانے والیاں حاضر ہو کر اپنی چوکی بھرتیں۔

’گانے والیاں آتیں تو تماش بین بھی آتے۔ نور پور کی چہل پہل دیکھنے والی ہوتی۔ ہر آنگن مہمانوں سے بھرا ہوا ہوتا۔ شہر کے اندر اور باہر کھلی جگہوں پر رنگ برنگے شامیانوں کا جھرمٹ سا لگا رہتا۔

’دن رات گانے والیوں کی تانیں، ناچنے والیوں کے گھنگھروں کی جھنکار آس پاس گونجتی رہتی۔‘

کرتار سنگھ دگل لکھتے ہیں کہ ’جب میں اپنے مسلمان دوست کے ساتھ پہلی بار بری امام کا میلہ دیکھنے گیا تو شام کے دھندلکے چھا رہے تھے ہر طرف تنبو ہی تنبو لگے تھے۔ اسی دن راولپنڈی سے جلوس اور ڈالیاں آرہی تھیں۔

’بے حد بھیڑ تھی۔ یا بری امام کے نعرے لگاتے، قوالیاں گاتے ہوئے مرد پاؤں میں گھنگھرو باندھ کر ناچتے، جلوس جب درگاہ کے نزدیک پہنچا تو تنبوؤں کے دونوں طرف لگی ہوئی بتیاں جگ مگ جگ مگ کرنے لگیں۔

’بگڑے ہوئے پٹھان، مستی میں جھومتے پوٹھوہاری جاٹ، نشے میں دھت زمیندار، ہر آدمی کے ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ ہر دوسرے آدمی کے گلے میں پستول تھا یا کندھے پر دونالی بندوق۔

’ہوٹلوں پر لوگ ٹوٹ ٹوٹ پڑتے۔ کہیں پر کبابوں کی خوشبو، کہیں بریانی کی سگندھ، کہیں پر فالودہ قلفی، کہیں پر جلیبیاں اور اندرسے۔ قدم قدم پر پان کی دکانیں قدم قدم پر سگریٹ اور بیڑی کے خوانچے۔

’ابھی ہم میلے کا پورا چکر بھی نہیں لگا پائے تھے کہ گھنگھرؤں کی جھنکار اور گیتوں کے بول کی تانیں سنائی دینے لگ پڑیں۔ ہر اڈے پر شام کی حکمرانی کسی خاص تماش بین کی ہوتی تھی۔ لیکن گانا سننے کے لیے کوئی بھی آسکتا تھا۔

’ویل‘ دے سکتا تھا لیکن جس کسی نے گانا سننے والی کی شام کو اپنے نام کیا ہوتا، محفل میں زیادہ تر اسی کی چلتی تھی۔ اس کی مرضی کے گیت گائے جاتے۔ اس کی مرضی کا ناچ ہوتا۔ تماش بین بے شک ’ویلیں‘ دیتے لیکن شام کے مالک کی برابری کوئی نہیں کر سکتا تھا

Source Link

For more:- paknetizens.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *