آرتھوڈوکس (قدامت پسند) یہودیوں کی شاید آج سب سے زیادہ باآسانی قابل شناخت برادری ہے۔ ان کو ان کے حلیے کی وجہ سے پہچاننا آسان ہے۔ کالے سوٹ اور چوڑے کناروں والی کالی ٹوپیوں میں ہریدی مرد جبکہ لمبی سکرٹ میں خواتین، موٹی جرابیں اور سر پر ٹوپی پہنتے ہیں۔ لیکن انہیں سمجھنا زیادہ مشکل ہے۔
اسرائیل کی اعلیٰ ترین عدالت نے منگل کو متفقہ فیصلے میں حکم دیا کہ ریاست ان انتہائی آرتھوڈوکس یہودیوں کو فوج میں بھرتی کر سکتی ہے۔ ایسا کرنے سے ممکنہ طور پر وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے حکمراں اتحاد کو عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ہائی کورٹ آف جسٹس کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری جارحیت اور لبنان میں ممکنہ لڑائی کی تیاریوں کے لیے انتہائی قدامت پسند افراد کو بھرتی کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عدالت نے کہا کہ ایگزیکٹیو برانچ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ مناسب قانون سازی کے فریم ورک کی عدم موجودگی میں یہودی مدرسے یشیوا کے طالب علموں کے لیے سکیورٹی سروس قانون نافذ نہ کرنے کا حکم دے۔
مدرسوں میں کل وقتی طور پر تورات پڑھنے والے یہودی مردوں کو 26 سال کی عمر تک فوج میں بھرتی ہونے سے سالانہ التوا دیا جاتا ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کو یہ استثنیٰ حاصل ہے
ملک کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون نے اس وقت کمیونٹی کے 400 طالب علموں کو استثنیٰ دیا تھا تاکہ وہ ہولوکاسٹ کے بعد یہودی علم اور روایات کا مطالعہ اور تحفظ کرسکیں۔
ججوں نے فیصلہ دیا کہ یہودی مدرسوں میں طالب علموں کو استثنیٰ دینے والے قانون کے بغیر ’ریاست کو قانون کو نافذ کرنے کے لیے کام کرنا چاہے۔‘
انہوں نے ریاست کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ یشیوا کی مالی اعانت روک دے جن کے طالب علم فوجی خدمات سے بچ جاتے ہیں۔
عدالت کا یہ فیصلہ سول سوسائٹی گروپوں کی جانب سے دائر درخواستوں کے جواب میں دیا گیا جس میں الٹرا آرتھوڈوکس مردوں کے لیے لازمی فوجی خدمات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
الٹرا آرتھوڈوکس یہودی اسرائیل کی تقریبا 10 ملین آبادی کا تقریبا 13 فیصد ہیں۔
اسرائیل میں ہر یہودی مرد کے لیے فوجی خدمات لازم ہیں جبکہ مذہبی خواتین کو استثنیٰ حاصل ہے
یتن یاہو کی موجودہ حکومت بھی دو الٹرا آرتھوڈوکس جماعتوں پر مشتمل ایک اتحاد ہے جو یشیوا یا مدرسے کے طالب علموں کے لیے فوجی مسودے کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔
عدالت کے فیصلے سے نیتن یاہو کی حکومت کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو اس معاملے پر منقسم ہے۔
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ میں الٹرا آرتھوڈوکس کمیونٹی کے امور کے ماہر گیلاڈ ملاچ کا کہنا ہے کہ بھرتی کے اہل افراد یعنی تقریبا 70 ہزار افراد اور فوج کی جانب سے متحرک افراد کے درمیان ایک ‘بڑا فرق’ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ فوج تمام الٹرا آرتھوڈوکس امیدواروں کو بھرتی کرنے کے احکامات جاری کرے لیکن عملی طور پر اس سال صرف چند ہزار ہی کو بھرتی کیا جائے۔
اگرچہ الٹرا آرتھوڈوکس پارٹیوں کے پاس موجودہ حکومت کا کوئی متبادل نہیں ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔ اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو نیتن یاہو اپنی پارلیمانی اکثریت کھو دیں گے کیونکہ دو الٹرا آرتھوڈوکس پارٹیوں کے پاس کنیسیٹ کی دستیاب 120 میں سے 18 نشستیں ہیں۔
لفظ ’ہریدی‘ ایک اصطلاح ہے جو مذہبی، سیاسی اور سماجی طور پر قدامت پسند آرتھوڈوکس یہودیوں کی ایک وسیع تعداد کا احاطہ کرتا ہے، جنہیں بعض اوقات ’انتہائی یا الٹرا آرتھوڈوکس‘ بھی کہا جاتا ہے۔
بیرونی اثر و رسوخ اور اقدار اور طریقوں کی آلودگی کو روکنے کی کوشش میں ہریدی بیرونی دنیا کے ساتھ اپنے رابطے کو محدود رکھتے ہیں حتیٰ کہ غیر ہریدی یہودیوں اور غیر یہودیوں دونوں سے دور رہتے ہیں۔ باہر کے لوگوں کے ساتھ تعلق ناگزیر عوامی معاملات تک محدود ہوتا ہے۔
وہ تاہم دوسروں کو زیادہ سخت مذہبی طور پر پابند بنانے کی ترغیب ضرور دیتے ہیں
دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا میں ہریدی کمیونٹیز قائم کی گئیں اور جب اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی تو ہریدی سرگرمیوں کا مرکز وہاں منتقل ہو گیا۔ اسرائیلی ریاست اس وقت دنیا بھر میں ہریدی کی سب سے بڑی آبادی کا گھر ہے، جس کی تعداد انداز بارہ لاکھ ہے جب کہ امریکہ تقریباً سات لاکھ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ البتہ ان میں شرح پیدائش کافی زیادہ ہے
خاندان اور طرز زندگی
وہ سیکولر تعلیم کی زیادہ تر اقسام کو نظر انداز کرتے ہیں تاہم چند پیشہ ورانہ ڈگریاں بھی کھتے ہیں۔ زیادہ تر بالغ مرد اپنے آپ کو کل وقتی تورات کے مطالعہ کے لیے وقف کرتے ہیں اور ان کی بیویاں عام طور پر کمانے والے کا کردار ادا کرتی ہیں۔
چونکہ زیادہ تر ہریدی واحد کمانے والے گھرانوں میں رہتے ہیں جن میں بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے یہ کمیونٹیز عام طور پر انتہائی غریب ہوتی ہیں، جن کو خیراتی اداروں اور حکومتوں سے سبسڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔
تاہم، حالیہ برسوں میں ایک نیا امیر ہریدی طبقہ بھی ابھرا ہے، خاص طور پر اسرائیل میں جو اعلیٰ انتظامی کاروبار اور ہیروں کی صنعت سے منسلک ہے۔ یہ اپنی آمدن کا ایک بہت بڑا حصہ فرقہ وارانہ خیراتی اداروں اور فنڈز کو بھیجتے ہیں۔
جب زندگی کے اہم فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ کہاں رہنا ہے، کس سے شادی کرنی ہے اور آیا کل وقتی پڑھنا ہے یا کام کرنا ہے، ہریدی یہودی اکثر اپنے ربیوں سے مشورہ کرتے ہیں
For more:- paknetizens.com